باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجالیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو
پھر تمھیں روز سنواریں تمھیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
کیا عجب خواہشیں اٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کرکے منا سا ہواؤں میں اچھالیں تم کو
اس قدرٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیارآتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلالیں تم کو
ہے تمہارے لیے کچھ ایسی عقیدت دل میں
اپنے ہاتھوں میں دعاؤں سا اٹھالیں تم کو
جان دینے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہو
ورنہ مر جائیں ابھی مر کے منا لیں تم کو
اب تو بس ایک ہی خواہش ہے کسی موڑ پر تم
ہم کو بکھرے ہوے مل جاؤ سنبھالیں تم کو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں