اپنی سانسوں کے مہکتے ہوئے دالان میں رکھ
میرا مطلب ہے تو کچھ روز مجھے دھیان میں رکھ
قریٗہِ قلب و نظر چھوڑ کے جانے والے
خاک ہوتے ہوئے پیکر کو بھی سامان میں رکھ
یا تو اے ربِ سخن مجھ پہ اتر حرف بہ حرف
یا پھر اک عمر مجھے آتشِ وجدان میں رکھ
عشق میں دیکھے گئے یار! سبھی خوابوں کو
اب سرِ طاق نہیں سورہِ رحمان میں رکھ
اس محبت سے مجھے کچھ نہیں لینا دینا
صاحبِ عشق مجھے اپنے غلامان میں رکھ
مرزا غالب نے کہا مجھ سے غزل کی مٹی
آبیاری کے لئے میر کے دیوان میں رکھ ۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں