تمہيد ِ ستم اور ہے ، تکميل ِ جفا اور
چکھنے کا مزا اور ہے پينے کا مزا اور
تاثير تو تاثير ، تصوّر ہے گريزاں
راتوں کو ذرا مانگئے اٹھ اٹھ کے دعا اور
دونوں ہي بنائے کشش و جذب ہيں ، ليکن
نغموں کي صدا اور ہے ، نالوں کي صدا اور
ٹکرا کے وہيں ٹوٹ گئے شيشہ و ساغر
ميخواروں کے جھرمٹ ميں جو ساقي نے کہا ، اور
وہ خود نظر آتے ہيں جفاؤں پہ پشيمان
کيا چاہيئے اور تم کو شکيل اس کے سوا اور
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں